ذہنی امراض
کل اپنے بیٹے ضوریز احمد کی چلنے والی ویڈیو لگائی تھی۔ ایک بہن کا انباکس میسج آیا۔ کہ ضوریز کی چلتے ہوئے وڈیو نہ لگایا کریں۔ ان سے دیکھا نہیں جاتا۔ کہ انکا اکلوتا بیٹا ٹانگوں سے معذور ہے اور وہ کسی کے بھی بچے کو چلتا دیکھتی ہیں تو انکا دل کرتا ہے اسکی ٹانگیں توڑ دیں۔ یا تو ان کا بیٹا بھی چلے یا پھر کوئی بچہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو۔ وہ کہتی ہیں یہ جزبات دن بدن انکی عقل پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ اور وہ اپنے ایک بھتیجے کو نقصان پہنچاتے ہوئے نجانے کیسے رکی ہیں۔ وہ طلاق شدہ ہیں سنگل مدر ہیں۔ اور ان سے یہ بھی برداشت نہیں ہوتا کہ کسی کی دوبارہ شادی کیوں ہوتی ہے۔ ان کو میں اسلیے بھی اچھا نہیں لگتا کہ میری نہ صرف دوسری شادی ہوئی بلکہ بیٹا بھی ہوا اور وہ اب چلنے لگا ہے۔ ایسے ہی کچھ میسج کرنے کے بعد انہوں نے مجھے بلاک کر دیا۔ اور میسج بھی ڈیلیٹ کر دیے۔ کاش میں انکی کوئی مدد کر سکتا۔ اس اذیت ناک ذہنی کیفیت سے ان کو نکالنے کی کوئی کوشش کر سکتا۔
ایک دفعہ ضوریز کو لیکر ہم ایک ہسپتال گئے۔ سرکاری ہسپتال تھا اور چھٹی کا وقت قریب تھا۔ ڈاکٹر نے ایک انجیکشن لکھ کر دیا اور ہمیں نرس کے پاس بھیجا کہ جا کر لگوا لیں۔ جب ہم اس کے کمرے میں گئے تو اس نے پوچھا لڑکا ہے یا لڑکی؟ میں نے لڑکا۔ بولی کتنے بچے ہیں؟ میں نے کہا دو۔ اس سے بڑی ایک بیٹی ہے۔ بولی میں جلدی میں کل آجانا انجیکشن لگوانے۔ ہم سے بات کرتے ہوئے وہ اپنا رجسٹر وغیرہ سمیٹ رہی تھی۔ میں نے کہا کہ ایک انجیکشن لگانے میں چند سیکنڈ ہی تو لگنے ہیں۔ منہ میں کچھ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
میں دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ بیٹے کی خواہش میں اس نرس کی 6 بیٹیاں ہو گئی ہیں۔ چھٹی بیٹی کے بعد اسکا رویہ ایسا ہوگیا ہے کہ اسے کوئی بھی بیٹا اچھا نہیں لگتا۔ یہ مریضوں سے تعاون نہیں کرتی۔ غریب مریضوں سے بدتمیزی کرتی ہے۔ جہاں اسے پتا ہو کہ اگلا بندہ مجھے سبق سکھا دے گا۔ یا ویسا ہی برا پیش آئے گا۔ وہاں ایسے ہی تعاون نہیں کرتی جیسے آپ کے ساتھ نہیں کیا۔ ڈاکٹر نے ٹیبل پر رکھی گھنٹی بجائی۔ اسسٹنٹ اندر آیا اور اسے کہا گیا کہ نرس کو واپس بلاؤ۔ وہ تب تک ہسپتال کے باہری گیٹ تک جا چکی تھی۔ وہ غصے میں لال پیلی اندر ائی اور چیخنے چلانے لگی۔ وہ غصے سے کانپ رہی تھی اور عنقریب تھا کہ ڈاکٹر یا مجھے کوئی چیز دے مارتی۔ میں نے کہا آپی آپ جائیں ہم کل آجائیں گے۔ اس پر سختی کی جاتی تو وہ شاید انجیکشن جان بوجھ کر ایسی جگہ لگا دیتی کہ وہ خراب ہوجاتا اور ہم کتنا نقصان اٹھانا پڑتا۔
میری دادی بات سناتی ہیں کہ یہاں ہمارے گاؤں میں ایک عورت ہوا کرتی تھی۔ اسکے بچے عین پیدائش کے وقت دائی کے ہاتھوں میں فوت ہو جاتے تھے۔ مسلسل پانچ بچے فوت ہوئے۔ اس کے بعد اس نے کہیں سے کوئی جادو ٹونہ کرایا۔ وہ کوئی تعویز پی کر یا کچھ پڑھ کر ان گھروں میں جاتی جہاں اسے معلوم ہوتا کہ کوئی بچہ پیدا ہوا ہے۔ اماں کہتی ہیں کہ وہ جادو تھا یا کوئی اتفاق تین چار بچے اسے ملنے کے چند ہی دن میں وفات پا گئے۔ اسکے بعد نجانے کیسے یہ خبر راز نہ رہی اور لوگوں نے اسکا اپنے گھروں میں آنا جانا بند کر دیا۔ اسے ایسا جادو کرکے دینے والے بابا نے کہا تھا کہ جتنے بچے مریں گے اتنے تمہارے ہاں پیدا ہونگے۔ اور اسے بھی اتفاق کہیے یا کچھ اور اسکے اب تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ جوان ہیں شادی شدہ ہیں۔ وہ خود مر چکی ہوئی۔
میری امی بات سناتی ہیں کہ ایسی ہی ایک عورت انکے گاؤں میں بھی تھی۔ اسکی بیٹی کے بچے دوران حمل ضائع ہو جاتے تھے۔ اور وہ بھی اوپر بیان کیے گئے طریقے کے مطابق کوئی جادو ٹونہ کرکے نئے پیدا ہونے والے بچوں کے گھروں میں جاتی تھی۔ جب اسکے اس عمل کا گاؤں والوں کو علم ہوا تو انہوں نے اسکے خاوند کا کہا اسے منع کرو۔ اسکے خاوند نے اسے گھر میں زنجیر مار کر باندھ دیا۔ اور وہ مان بھی گئی کہ ہاں وہ سب کے بچے مار دینا چاہتی ہے۔
بے اولادی اور بیٹے کا نہ ہونا ہمارے معاشرے میں انسان کو کہاں تک لے جاتا ہے۔ لوگ ڈاکٹروں حکیموں سے ہوتے ہوئے ایسے عاملوں اور جعلی پیروں کے پاس پہنچ جاتے جہاں وہ اپنی عزت و آبرو اور ایمان تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسروں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔ یا ایسی سوچ خود پر سوار کر لیتے ہیں۔
یہ ساری کیفیات اور ان سے ملتی جلتی دیگر حسد کرنے، بغض رکھنے، کسی کی عزت پر حسد کی وجہ سے وار کرنے یا کسی کو نقصان پہنچانے کی ٹوہ میں رہنے والی سوچ سبھی ذہنی امراض ہیں۔ اور ان کا علاج موجود ہے۔ اپنے آس پاس ایسے مریضوں کو دیکھیں تو ان سے نفرت نہیں محبت کریں۔ ان کو وقت دیں۔ انکی بات سنیں۔ ان کو کسی سائیکالوجسٹ یا سائکیٹرسٹ سے ملنے پر آمادہ کریں
Comments
Post a Comment